recent posts

banner image

عمران خان کی کہانی ایک کال کی

 عمران خان نے ایک ٹیلی فون کال کے جواب میں کہا کہ موجودہ مہنگائی کو زیادہ نہ سمجھیں اور جا کر ایک دفعہ وینزویلا کا حال دیکھیں تو 45 فیصدی طبقے نے اس پر جگتیں لگانی شروع کردیں کہ ایک وقت آئے گا جب وینزویلا والے ہمارے ملک پاکستان اور عمران خان کی مثالیں دیا کریں گے- میں نے یہ پوسٹ نہیں کرنی تھی لیکن بہت سے سمجھدار لوگوں کو اس طرح کی ٹکچریں کرتے دیکھ کر یہ پوسٹ کرنے پر مجبور ہوا کہ ان بیچاروں کو اصل حقائق کا علم ہی نہیں ہے کہ وینزویلا کا حال کیا ہوا۔

چلیں  وینزویلا کے آج کے حالات کی تفصیلات شیئر کرتا ہوں کہ وہاں کیا ہوا تھا۔


وینزویلا دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے اور اس کی اکانومی بڑی اکانومیوں کے لحاظ سے 90 کی دہائی میں دنیا کی پہلی 20 اکانومیز میں آتی تھی کہ پھر وہاں ایک بحران آیا اور اس کے بعد وینزویلا کی اکانومی اس وقت دنیا کے 20 غریب ترین ممالک میں آتی ہے۔


وینزویلا کی ساری اکانومی تیل پر منحصر تھی۔ 95 فیصد ریونیو تیل سے آتا تھا۔ لہٰذا وینزویلا کو کسی قسم کی روپے پیسے کی ٹینشن نہیں تھی۔ 1999 میں وینزویلا کا صدر ہوگو چاویز کو بنایا گیا یوں سمجھیں کہ یہ ہوگو چاویز وینزویلا کا اسحاق ڈار تھا۔ چونکہ 1999 اور اس کے آس پاس تیل کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں لہٰذا وینزویلا کو ریونیو کے حوالے سے کوئی پرابلم نہیں تھا۔


ہوگوچاویز نے تیل سے آنے والے ریونیو کو سیاسی مقاصد کے لیے کچھ اس طرح استعمال کیا کہ اس نے ہر چیز پر سبسڈی دینی شروع کردی اور اتنی سبسڈی دی کہ پرائیویٹ مینو فیکچرنگ کمپنیاں جو کہ وہ چیزیں بناتی تھیں وہ نقصان میں جانے لگیں کیونکہ ان کمپنیوں کی قیمت خرید ہی پوری نہیں ہورہی تھی لہٰذا وینزویلا میں پرائیویٹ کمپنیاں بند ہونے لگیں۔


یہ وہ وقت تھا جب تیل کی قیمتیں ابھی زیادہ ہی تھیں لہٰذا وینزویلا کو اس چیز کا بالکل بھی احساس نہیں ہوا۔ یہی کام اسحاق ڈار نے کیا سبسڈیز دیکر مہنگائی کو بڑھنے نہیں دیا کیونکہ مہنگائی کا 5 فیصد سالانہ کے لحاظ سے اکانومی کے گرو کرنے کے لیے بڑھنا بہت ضروری ہوتا ہے، لہذا جب عمران خان کی گورنمنٹ نے سبسڈیز بند کیں، ڈالر کی آرٹیفیشل قیمت کو مارکیٹ ریٹ پر چھوڑا تو وہ مہنگائی جس کو زبردستی روک کر رکھا گیا تھا وہ یک دم بڑھ گئی۔ کیونکہ ن لیگی دور میں مہنگائی کی پر شرح 10 فیصد سے زیادہ ہی تھی جس کو سبسڈی سے 4 فیصد پر رکھا گیا تھا جبکہ ڈالر کی قیمت کو 102 پر رکھنے سے ایکسپورٹ اور انڈسٹری ساری تباہ ہوگئی تھی۔ تب پتہ نہیں چلا کیونکہ ساری اکانومی امپورٹ پر تھی۔ جب ڈالر مہنگا ہوا تو مہنگائی کا احساس ہوا۔

دوسرا وینزویلا کے صدر ہوگو چاویز کو شہباز شریف اور نواز شریف کی طرح فضول کے پراجیکٹس شروع کرنے کا بہت شوق تھا لہٰذا اس نے ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی منصوبہ شروع کرکے اس میں پیسے جھونکنے شروع کردیئے پیسے کم پڑتے تو قرضہ لینا شروع کردیا اور یہ قرضہ زیادہ تر چین سے لیا جاتا۔ چین نے قرضے کے بدلے پیسہ لینے کی بجائے مارکیٹ ریٹ سے سستے تیل کی امپورٹ کرنی شروع کردی۔ یہ بھی وہ وقت تھا جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں زیادہ تھی لہٰذا وینزویلا کو کوئی احساس نہیں ہوا۔


2013 میں وینزویلا کا صدر ہوگو چاویز کینسر کی وجہ سے فوت ہوگیا اور اسی سال نکولس مڈورو وینزویلا کا نیا صدر بنا۔ اسی سال تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں گرنا شروع ہوگئیں چونکہ وینزویلا نے تیل کے علاوہ کسی اور سورس آف انکم کی طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا لہذا وینزویلا کا ریونیو کم ہونے لگا۔ جس کے بعد وینزویلا کو سبسڈیز برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ پرایئویٹ کمپنیز پہلے ہی بند ہوچکی تھیں۔ لہذا وینزویلا کے پاس ایک ہی آپشن بچتی تھی کہ چیزوں کو امپورٹ کیا جائے۔


امپورٹ کے لیے جو پیسہ چاہیے تھا وہ تھوڑا سا تو تیل بیچ کر آرہا تھا باقی وینزویلا نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپنے شروع کردیئے جبکہ نوٹ چھاپنے کی کپیسٹی اتنی نہیں تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہنگائی ہونا شروع ہوئی۔ وینزویلا نے اتنے نوٹ چھاپے کہ 2016 میں مہنگائی کی شرح 800 فیصد ہوگئی، اور 2018 میں مہنگائی کی شرح 80000 فیصد ہوگئی۔ 2013 میں 1 ڈالر "8 بولی ور" (وینزویلین کرنسی) کے برابر تھی لیکن آج 1 ڈالر "10 ہزار بولی ور" کے برابر ہوچکا ہے۔


اب اس کو اپنے ملک پاکستان میں اسحاق ڈار کی پالیسیوں سے میچ کریں۔ فضول پراجیکٹس ہم نے بھی شروع کیے، اس کے لیے مہنگے قرضے لیے، جی ڈی پی کے لیے بروکن ونڈو لیگیسی والی پالیسی اپنائی، اسٹیٹ بینک کے معاملات میں مداخلت کرکے ڈالر کی قیمت کو مینو پلیٹ کیا جس سے انڈسٹری اور ایکسپورٹ تباہ ہوگئی، تھوک کے حساب سے نوٹ چھاپے جس سے مہنگائی پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوا تو سبسڈیز دیکر مہنگائی کو بڑھنے نہ دیا۔ اسحاق ڈار کے دور میں کمائی کا ذریعہ صرف قرض لینا تھا اس کے علاوہ کسی چیز پر کوئی کام نہیں کیا گیا اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 بلین ڈالر تک پہنچ گیا اور ہمیں قرضوں کی اقساط دینے میں مشکلات کا سامنا ہونے لگا۔ یہ وہ حالت تھی جب عمران خان کو حکومت ملی۔ 2013 میں وینزویلا کے صدر ہوگو چاویز کی وفات کے بعد نکولس مڈورو کو اسی حالت میں حکومت ملی جیسے پاکستان میں ساقے منشی کے فرار کے بعد عمران خان کو حکومت ملی۔ وینزویلا میں مہنگائی کی شرح اس وقت 80 ہزار فیصد پہنچ چکی ہے۔ جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12 فیصد کے آس پاس رہی اور جبکہ اب یہ ہر سال مزید کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔

 


جو کرنٹ پالیسی چل رہی اس کے مطابق 2023 یا 2024 میں مہنگائی کی شرح 5 فیصد یا 5 فیصد سے کم ہوجائے گی، کیونکہ اکانومی چلانا ایک لانگ ٹرم پراسس ہے اور وہ بھی اس وقت جب آپ کی کمائی ساقے منشی نے ختم کی ہو اور ساتھ میں آپ پر پہاڑ جتنے قرضے ہوں۔


لہٰذا دانشوڑو!!!! وینزویلا کی جگتیں لگانے سے پہلے ایک دفعہ وینزویلا اور زمبابوے میں جو ہوا اس کو ضرور اسٹڈی کرلینا- اور اس کے بعد جگتیں کرنا کیونکہ ہمارے ہاں 2013 سے 2018 میں بھی وہی کچھ ہوا جو ان ملکوں میں ہوا

عمران خان کی کہانی ایک کال کی عمران خان کی کہانی ایک کال کی Reviewed by Urdu on April 09, 2021 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.